مجھ کو لگا وہ شخص بڑا معتبر سا تھا
وہ آگے چل رہا تھا مگر ہمسفر سا تھا
صدیوں کے بعد پیدا ہوا جب تو چار سُو
ہر کوئی انتظار میں تھا باخبر سا تھا
علم و ہنر کی بام پہ کرتا تھا گفتگو
وہ راہبر تھا گرچہ وسیع النظر سا تھا
حکمت کے موتیوں کی جو مالا بکھیر دی
تقسیم کر دیا جو خزانہ گہر سا تھا
اس کی شجاعتوں کا مقابل نہ تھا کوئی
وہ بے ضرر تھا ساتھ ہی وہ بے خطر سا تھا
صائب تھی اس کی رائے مذاہب پہ تھی نظر
اس کا ہر ایک مشورہ بھی کارگر سا تھا
نسخوں سے روح و جسم کے دیتا رہا شفا
کرتا علاج جیسے کوئی چارہ گر سا تھا
طارق اسی کے نور سے پائی ہے روشنی
وہ بڑھ کے تھا فرشتوں سے لیکن بشر سا تھا

0
90