مسکراتے ہوئے آتے ہوئے دیکھا ہے اُسے
دل میں وہ چہرہ بساتے ہوئے دیکھا ہے اُسے
اُس کے انوار سے ماحول منوّر جو ہوا
نور وہ دل میں سماتے ہوئے دیکھا ہے اسے
اس کی پاکیزگیٔ روح نہ پوچھو ہم سے
ہم نے زمزم میں نہاتے ہوئے دیکھا ہے اسے
اس نے ہر وار لیا سینے پہ آگے بڑھ کر
دل کو زخموں سے سجاتے ہوئے دیکھا ہے اسے
کتنے بیمار دلوں کو وہ شفا دیتا ہے
مردہ روحوں کو جِلاتے ہوئے دیکھا ہے اسے
اس کی پرواز اکیلے ہی نہیں ہوتی یہاں
اور طائر بھی اڑاتے ہوئے دیکھا ہے اسے
بانٹتا پھرتا ہے گھر گھر میں وہ عرفاں کی شراب
تشنہ روحوں کو پلاتے ہوئے دیکھا ہے اسے
اس نے ہر خطرے سے عالم کو خبر دار کیا
سو نے والوں کو جگاتے ہوئے دیکھا ہے اسے
آگئے امن میں طارق جو سمجھ جاتے ہیں
جنگ سے روز بچاتے ہوئے دیکھا ہے اسے

100