غزل
اِن آنکھوں میں تُو تھا تو حسیں خواب بہت تھے
گلشن مرے دل کے کبھی شاداب بہت تھے
غیروں کے ستم ہوتے تو ہو جاتا گزارہ
اپنوں ہی سے بربادی کے اسباب بہت تھے
دو چار بھنور آئے نظر مجھ کو ڈبونے
پوشیدہ تھے نظروں سے جو گرداب بہت تھے
گو سطحِ سمندر پہ نظر آئے نہ طوفاں
سینے میں چھپے گر چہ تہِہ آب بہت تھے
ہونٹوں کو جو دیکھا ہے تو پیاسے نظر آئے
آنکھوں میں وہیں پر کہیں سیلاب بہت تھے
اظہارِ محبّت کا سلیقہ نہیں آیا
تہذیب نے سکھلائے جو آداب بہت تھے
طارق نے تراشا ہے صنم اپنا وگرنہ
بت خانے کے بت سارے ہی نایاب بہت تھے

0
31