غزل |
اِن آنکھوں میں تُو تھا تو حسیں خواب بہت تھے |
گلشن مرے دل کے کبھی شاداب بہت تھے |
غیروں کے ستم ہوتے تو ہو جاتا گزارہ |
اپنوں ہی سے بربادی کے اسباب بہت تھے |
دو چار بھنور آئے نظر مجھ کو ڈبونے |
پوشیدہ تھے نظروں سے جو گرداب بہت تھے |
گو سطحِ سمندر پہ نظر آئے نہ طوفاں |
سینے میں چھپے گر چہ تہِہ آب بہت تھے |
ہونٹوں کو جو دیکھا ہے تو پیاسے نظر آئے |
آنکھوں میں وہیں پر کہیں سیلاب بہت تھے |
اظہارِ محبّت کا سلیقہ نہیں آیا |
تہذیب نے سکھلائے جو آداب بہت تھے |
طارق نے تراشا ہے صنم اپنا وگرنہ |
بت خانے کے بت سارے ہی نایاب بہت تھے |
معلومات