آس کی ڈور پہ سانس تو اٹکی رہتی ہے بیماری میں
اُس قادر مطلق کے در پر جھکتے ہیں لا چاری میں
کب اس قابل سمجھیں خود کو چلنے کو تیار ہیں اب
جیون سارا گزرے چاہے مرنے کی تیّاری میں
شاید کچھ مہلت دیتا ہو ، توبہ کی توفیق ملے
کب کے ہم تو رخصت ہو تے ورنہ اپنی باری میں
اپنی اپنی آن پڑی تو کون بچانے آئے گا
کون کسی کے کام آتا ہے خود ہو جب دشواری میں
اس نے تو ہر دور میں بھیجا خوشیوں کا پیغام ہمیں
کون مگر اہمیّت دیتا دین کو دنیا داری میں
اس نے اپنے گھر آنے کا نقشہ بھی تو بھیج دیا
ہم نے ہی سنبھال کے رکھا طارق یہ الماری میں

34