وصل کی جو گھڑی نہیں ہوتی
پھول کوئی کلی نہیں ہوتی
بے قراری رہے جو اس کے لئے
اس سے شرمندگی نہیں ہوتی
عشق تم کو نہیں ہوا ورنہ
اتنی افسردگی نہیں ہوتی
حسن پر گر نظر نہیں پڑتی
عشق سے آگہی نہیں ہوتی
وقت آیا ہے ابرِ باراں کا
ورنہ یہ تشنگی نہیں ہوتی
وہ ہی مالک ہوا ہے خود ورنہ
ہم سے تو بندگی نہیں ہوتی
ہاں کسی اور در پہ جا کے جھکیں
اس پہ آمادگی نہیں ہوتی
زندگی ہم نے کی تمہارے نام
تم سے وابستگی نہیں ہوتی
زندگی امتحان ہے طارق
اک مذاق اک ہنسی نہیں ہوتی

0
38