نرم گر یہ زباں ہوا کرتی
زندگی مہرباں ہوا کرتی
آزمائش کبھی جو ہوتی بھی
پیار کا امتحاں ہوا کرتی
اُس کے پیاروں کا نام بھی آتا
یوں رقم داستاں ہوا کرتی
وہ جو اپنا یقیں نہ دلواتا
اُس کی ہستی گُماں ہوا کرتی
وہ تو آنکھیں کلام کرتی ہیں
بات ورنہ کہاں ہوا کرتی
مل کے آئی صبا گلابوں سے
ورنہ خوشبو نہاں ہوا کرتی
دید ہوتی تو ان کے چہروں پر
پھر مُسرّت عیاں ہوا کرتی
دیکھ لیتے اگر تِرا جلوہ
پھر تو چپ یہ زباں ہوا کرتی
تیری تعریف میں ، سمجھتی گر
قوم ، رطب اللّساں ہوا کرتی
تم سے کہتے اگر ، دعا کرتے
با اثر پھر اذاں ہوا کرتی
آ کے مل بیٹھتے جو سب طارق
کتنی رونق یہاں ہوا کرتی

0
59