سفر کا شوق بھی دُشوار رہگزار بھی ہے
جو چل پڑا ہوں تو منزل کا انتظار بھی ہے
چمن میں پھول کھلے ہیں فضا میں خوشبو ہے
ہو الوداع اےخزاں ، کہہ رہی بہار بھی ہے
ہم اس سے پہلے بھی آئے ہیں اس طرف اکثر
مگر وہ آیا ہے جب سے یہاں قرار بھی ہے
ہمارا حوصلہ بڑھتا ہے اس کی رحمت سے
نظر میں اپنے گناہوں کا کچھ شُمار بھی ہے
نگاہ نیچی کئے سر جھکائے بیٹھے ہیں
ادب کا بھی ہے تقاضا کچھ اس سے پیار بھی ہے
مجھے خلوص سے انکار تو نہیں لیکن
عروج پر یہاں جذبوں کا کچھ نکھاربھی ہے
مرے لہو میں ہے باقی ابھی وفا کی مہک
ہزار بار دل و جان یہ نثار بھی ہے
نگار خانۂ دل میں بسا ہے عکس اُس کا
اسی کی نظرِ عنایت سے دل فِگار بھی ہے
نگاہِ شوق میں دیکھا ہے پیار بھی اس نے
ہماری بات پہ کچھ اس کو اعتبار بھی ہے
گمان ہے یہی طارق تمہیں محبّت ہے
جو اُس کا تذکرہ ہے ذکر بار بار بھی ہے

348