کہتے ہیں کوئی آتا نظر راہبر نہیں
اُترا جو آسمان سے اس کی خبر نہیں
جس کو نگاہیں ڈھونڈتی پھرتی تھیں ہر طرف
حیرت ہے اس کی سَمت کسی کی نظر نہیں
جلتے ہیں یونہی اب بھی کھڑے سخت دھوپ میں
سایہ جو دے نظر انہیں آتا شجر نہیں
منبر پہ چڑھ کے بولتے با ریش ہیں کئی
سوچیں تو ان کے وعظ میں کیونکر اثر نہیں
آئے بھی کیسے راستہ سچائی کا نظر
خود اپنے آپ سے ہوئے مخلص اگر نہیں
پہچانتی ہے فطرتِ انسان فرق کو
با طل سے حق کو مات دے ایسا ہُنر نہیں
پھل کھائیں نیچے جو ہیں شجر سایہ دار کے
جو دور ہیں نصیب میں ان کے ثمر نہیں
طارق خدا کے فضل سے ہی رہنمائی ہو
آسان ورنہ ڈھونڈنا سیدھی ڈگر نہیں

1
46
پسندیدگی کا شکریہ صبا معظم خان صاحبہ

0