محبّت میں فنا ہو کر خیالِ یار کو جانا
اسی سے زندگی پائی ہے ہم نے پیار کو جانا
سلیقہ آ گیا ہے آزمائش سے نکلنے کا
پڑی سر پر جو ہجرت ہم نے یارِ غار کو جانا
اُڑے تھے جو پرندے مل کے منزل پا گئے ہیں وہ
الگ ہو کر جو رستہ کھو گئے تب ڈار کو جانا
مسیحا کی ضرورت کا انہیں احساس کیا ہوتا
کیا ہے یاد اس کو جب دلِ بیمار کو جانا
گلوں کی سیج سمجھے چل پڑے جو سیدھے رستے پر
ہوئے جب آبلہ پا پتھروں کو خار کو جانا
وہ جلتے دھوپ میں ہیں دوسروں کو سایہ دیتے ہیں
پھلوں کے ذائقے سے بھی تو ہے اشجار کو جانا
کریں محنت اگر کچھ اجر کی امّید ہوتی ہے
ہمیں اچھا نہیں لگتا کہیں بیگار کو جانا
ہمیں فرصت کہاں تھی ہم پرکھ لیتے زمانے کو
ہے جن سے واسطہ اپنا انہی دوچار کو جانا
تمہیں طارق میسّر اس کی صحبت جب بھی ہو جائے
اسے کہنا یہیں رہنا ہے کیا گھر بار کو جانا

0
34