لگا تھا دل پہ اچانک جو تیرِ یار کا زخم
بھرا نہیں ہے وہ اب تک نظر کے وار کا زخم
ہمیشہ رِستا رہا ہے وہ میری یادوں میں
خزاں میں اور ہرا ہو گیا بہار کا زخم
مرا بدن نہیں زخمی ہوا ہے پتھر سے
گلاب نے یہ دیا ہے نہیں ہے خار کا زخم
مجھے عزیز رہا درد جو ملا تُجھ سے
لگا جو راستے میں تیرے ، سنگسار کا زخم
زمین ہی نہیں شاہد ہے آسماں اس پر
کہاں کہاں نہ لگا دل پہ انتظار کا زخم
نصیبِ چارہ گری ، ہو گیا تِرا ملنا
بھرے گا کیسے لگا ہے جو تیرے پیار کا زخم
ہوئی ہے جب بھی ملاقات ہو گیا تازہ
تری نگاہ کا جوں تیغِ آب دار کا زخم
چھلک گئی ہیں جو آنکھیں کھلا ہے راز اس کا
چھپا کے رکھا تھا ہم نے دلِ فگار کا زخم
ہے راس آ گئی طارق ہمیں یہ ویرانی
کوئی جو دیتا نہیں طعنِ تیز دھار کا زخم

0
14