دل نے تجھے تھام تو لیا ہے مگر کیا
طنز زمانہ بھی کر رہا ہے مگر کیا
ظلم صنم ڈھائے، چاہے سولی چڑھا دے
سارے گوارہ ستم و سزا ہے مگر کیا
مفلسی کی زندگی گزار رہے ہیں
حال بہت خستہ و بے سرا ہے مگر کیا
آسودگی مثل خواب بن چکی جیسے
سعی کو پر لازمی کیا ہے مگر کیا
عشق بری چیز رہتی ہی نہیں لیکن
لوگ غلط سمجھے جو برا ہے مگر کیا
چاہ لئے قلب میں بھٹک رہیں در در
آس کو بھی زندہ ہی رکھا ہے مگر کیا
چلتے رہیں، سوچ رکنے کی نہ ہو ناصرؔ
آگے بڑھے، کوئی گر خفا ہے مگر کیا

0
57