سجا کے دل میں رکھا ہم نے ہجرِ یار کا داغ
لگا تھا گرچہ کلیجے پہ اس کے وار کا داغ
عیاں کیا ہی نہیں اس پہ جب ملا ہوں اسے
چھپا کے رکھا ہے سینے میں اس کے پیار کا داغ
نمایاں میں نے کیا کب تھا ضد تمہاری تھی
دکھایا جائے سبھی کو دلِ فِگار کا داغ
بھروسہ میں نے کِیا تم پہ خود سے بھی بڑھ کر
مگر تمہی سے ملا مجھ کو اعتبار کا داغ
مرے ضمیر نے مجھ کو ہی سنگسار کیا
لگا کے مجھ پہ ہمیشہ گناہ گار کا داغ
مرا بیان سنا ہی نہیں عدالت نے
دکھاتا کیسے وہاں پر کسی عیّار کا داغ
مجھے تو لُوٹا گیا ہے بھری جوانی میں
نحیف کر گیا مجھ کو جو لُوٹ مار کا داغ
مرے جو بس میں ہو طارق علاج میں کر دوں
کہ اب تلک نہ مٹا ہے ترے شکار کا داغ

0
48