اس ہجر میں وہ ہجر کا سا وہ مزا نہیں
ملنی جو تھی وہ عشق میں یہ وہ سزا نہیں
اب دوریاں بھی مجھ کو تو بے تاب نا کریں
اب ملنے کی بھی دیتا ہوں تجھ کو صدا نہیں
احساس تیرے ہونے کا اب ہے نہیں مجھے
چہرے سے تیرے میری محبت بھی وا نہیں
آ مل کے بیٹھ جاتے ہیں اور فیصلہ کریں
تو میرا اب نہیں تو میں تیرا رہا نہیں
نظریں چرا کے سوچ ہی لیتے ہیں اب کے ہم
مجھ سے ملا نہیں تو میں تجھ سے ملا نہیں
اس دور سے گزر چکا جو جانچ میں کروں
کس کس میں ہے وفا یہاں کس میں وفا نہیں
یہ کج ادائی بھی تو وفا کا ہی روپ ہے
دونوں کی ہیں جو منزلیں وہ تو جدا نہیں
اپنی طبیعتوں کی بھی یہ رمز ہے عجب
چلنا ادھر ہی ہے مجھے جس رخ ہوا نہیں
سب کاوشیں گئیں ہیں ہمایوں کی رائیگاں
تیری محبتوں کا ملا کچھ صلہ نہیں
ہمایوں

0
31