آشناۓ رنج و غم ہے زخم سے دل چور ہے
بزمِ ہستی بھی خدایا ! درد سے معمور ہے
ہستیِ نوخیز ہے یہ دردِ دل کس سے کہے
خلوت و جلوت ہو یہ دل غمزدہ رنجور ہے
دفترِ ہستی کو گرچہ اک عمل حاصل نہیں
قلبِ محرومِ عبادت کو امیدِ حور ہے
حسرت و افسوس کا میں پیکرِ احساس ہوں
زخمِ دل کی ہر ادا اک فتنۂ ناسور ہے
آتشِ سوزِ نہاں سے جل گیا ہے میرا دل
آب جو ہے ،سوختہ دل، تشنہ لب، معذور ہے
ہے زباں پر شکوہِ بےداد آخر کیا کروں
دل پریشاں حال ہے عادت سے یہ مجبور ہے
اشک سے بیتابیاں ایسے نمایاں ہیں میری
جیسے راقم کی لکھاوٹ لوح پر مسطور ہے
وادیِ سینا کے دل پر ہوں کھڑا لیکن کہ آہ
میں وہ موسی ہوں کہ جس کا بے تجلی طور ہے
خدمتِ دین کا فریضہ کیسے میں انجام دوں
آنکھ میری بے حیا ہے دل مرا بے نور ہے
خضرِ راہ اب ! مجھ کو بھی تو راہِ حق دکھلاتا جا
راہ سے بھٹکا ہوا ہوں اور منزل دور ہے
دردِ دل کی ہے دوا کیا ؟ ساقیِ راحت رساں !
دل کے مے خانے میں کوئی دردِ جاں مستور ہے
درد کے اس لشکرِ جرار کے آگے مرا
دل کا فولادی قلعہ بھی جابجا محصور ہے
دردِ دل مولی! تجھے میں اس سے بڑھ کر کیا کہوں
ایک دل سینے میں اور وہ درد سے معمور ہے
میرے دل کو بھی بدل دے یا مقلبْ القلوب!
اس جہانِ رنگ و بو سے دل مرا مسحور ہے
دل کی دنیا پر میں شاہؔی ہوں بہت حیران و دنگ
رنج و غم ،نفرت ، محبت کیا عجب دستور ہے

1
74
دردِ دل