خدایا ملے یہ سہانہ سفر
ملے پھر پیمبر کے کوچے میں گھر
حسیں عشقِ احمد ہو تقدیر گر
عطا گر ہے جس کی نبی کی نظر
ہوں پاک اُن کے جوڑے حسیں تاجِ سر
مقدر پہ دائم ہو اُن کی نظر
رفاقت ملے اُن کے عشاق کی
مقاصد میں جن کے نبی کا ہے در
بہ ذکرِ پیمبر وہ تاثیر ہے
کہ راحت دلوں کی ہے یہ عمر بھر
ہے کافور ظلمت دلوں کی کرے
ذرا رکھیے گنبد تو پیشِ نظر
اے محمود جاگیں سوئے بھاگ پھر
ہو بطحا حزیں کا سدا مستقر

44