داستاں پھر کوئی اپنے سے عبارت کر لیں
پھر سے اک بار یوں تھوڑی سی شرارت کر لیں
پھر سے بنیاد محبت کی کہیں رکھ لیں ہم
پھر سے مل کر اسے ہم دونوں عمارت کر لیں
آؤ مل کر یوں بسا لیتے ہیں دنیا اپنی
عہد و پیمان کی یوں پھر سے جسارت کر لیں
قربتوں کے کوئی پھر سے یوں تقاضے دیکھیں
فرقتوں میں بھی کہیں پھر سے مہارت کر لیں
صدیاں بھی تو یہاں بس چشمِ زدن میں گزریں
رہ گیا وقت جو یوں پاس طہارت کر لیں
بعد مرنے کے ملے گا کہاں یہ درد و غم
خود کو دنیا میں ہمایوں جو بشارت کر لیں
ہمایوں

0
31