میدان جنگ میں بازی کون مارتے ہیں
ہو کسب جن کے حاوی، وہ لوگ جیتتے ہیں
گِر کر سنبھل بھی جائيں، دوبارہ دوڑ لیں جو
پھر ختم ہو رکاوٹ، کھلتے بھی راستے ہیں
جدوجہد ضروری رہتی مقابلہ میں
محنت سے ہی ہمارے تقدیر سنورتے ہیں
حیلے بہانے کرنے سے ہو گریز سب کو
جلتے چراغ باد و باراں ہوتے ہوئے ہیں
ہمت و بہادری کا کرتے مظاہرہ جب
تب کامیابی کو اپنے پاس دیکھتے ہیں
مایوس ہونے سے تو بالکل بچے رہیں ہم
ورنہ تو حوصلہ اپنے سارے ٹوٹتے ہیں
جب پاتے تجربہ سے گُر زندگی میں کچھ کچھ
پُراعتماد رہنا اس وقت سیکھتے ہیں
گَر ہار ملتے ناصؔر محسوس ہو بھی جائیں
بے جگری سے پلٹنا بھی خوب جانتے ہیں

0
68