برا وقت اپنی قسمت میں مجھے لکھا نہیں لگتا
جو تالا زہن کا کھولا وہ اب تالا نہیں لگتا
سمندر کے کنارے بیٹھ کر موجوں سے ڈرتا تھا
میں اترا ہوں سمندر میں تو اب خطرا نہیں لگتا
محبت نے یوں نظریۂ اضافیت سمجھایا
وہ اک لمحا محبت کا مجھے لمحا نہیں لگتا
میں جبر و اختیار کے فلسفے میں کھو گیا ایسا
جو پہلے مجھ کو لگتا تھا وہ اب ویسا نہیں لگتا
سکھایا حضرتِ غالب نے نسخہ درد سہنے کا
جلاتا اس کو ہوں جتنا یہ دل جلتا نہیں لگتا

0
62