نہیں کہتا کہ مے باقی نہیں ہے
تعجّب ہے مگر ، ساقی نہیں ہے
نہ گھر ہوں میزباں ، آئیں جو مہماں
عمل یہ غیر اخلاقی نہیں ہے ؟
جو آئے بعد میں ، محروم کیوں ہوں
خدا کی ایسی رزّاقی نہیں ہے
کِیا سیراب اک زم زم سے صحرا
تو کیا یہ کارِ تریاقی نہیں ہے ؟
ہدایت آسماں سے اب جو اتری
وہ کیا تعلیم آفاقی نہیں ہے
ذرا سا غور کر کے کوئی دیکھے
یہ نسخہ *سادہ اوراقی نہیں ہے
دُعا پہنچے گی کیسے آسماں تک
سواری جبکہ برّاقی نہیں ہے
لُٹیں ساحل پہ آ کر بھی مسافر
سمندر میں ہی قزّاقی نہیں ہے
محبّت میں فدا کرتے ہیں جاں بھی
جنوں ہی رسمِ عُشّاقی نہیں ہے
سُنیں گے کیا فسانہ ہائے ماضی
یہاں اب **سوزِ مشتاقی نہیں ہے
نہیں سمجھا جو طارقؔ ، کہہ رہا ہے
بیاں کرنے کی مشّاقی نہیں ہے

0
1
83
سادہ اوراقی: خالی صفحے
سوزِ مشتاقی: پیار کا جنون

0