دیکھا ہے وہ چہرہ کبھی جی بھر نہیں دیکھا |
نظریں جو ملیں ، نظریں اُٹھا کر نہیں دیکھا |
اک حسن کے جلوے کا تصور تو ہے قائم |
آنکھوں نے اسے نور سے باہَر نہیں دیکھا |
اُس شمعِ فروزاں پہ فدا ہم جو ہوئے ہیں |
اُس لعل سا روشن کوئی گوہر نہیں دیکھا |
ہم ہی نہیں داخل صفِ عشّاق میں اس کی |
کرتا جو نہ ہو جان نچھاور ، نہیں دیکھا |
دل اس کی محبّت میں دھڑکتا ہے تو ایسا |
ہم نے تو کوئی دنیا میں ، دلبر نہیں دیکھا |
ہے ایک جہاں کب سے کھڑا اس کے مقابل |
اس میں کبھی دشمن کا کوئی ڈر نہیں دیکھا |
الزام ہمیں دیتی ہے دنیا تو وہ دے گی |
پیغام یہ رکنے کا تو منظر نہیں دیکھا |
عرفان کے نکتوں کو صحیفوں سے بتا کر |
جو علم سے کرتا ہو منوّر نہیں دیکھا |
طارق کو تسلّی ہے تو بس اس کی دعا سے |
اس جیسا زمانے میں تو رہبر نہیں دیکھا |
معلومات