زندگی مایوسیوں کا نام ہو کر رہ گئی
کب سے اک خالی پڑا وہ جام ہو کر رہ گئی
پیٹ بھرنے کی تگ و دو وقت سارا لے گئی
زندگی کی صبح نکلے شام ہو کر رہ گئی
دوستوں سے کہہ تو دی فاقہ کشی کی داستاں
داستاں افلاس کی اب عام ہو کر رہ گئی
روز ان کو چاہیے میری وفاؤں کا ثبوت
عاشقی بھی اب تو اپنی کام ہو کر رہ گئی
مجھ کو دھوکا کیوں ہوا آزاد ہوں شاہد یہاں
میری ہر کوشش یہاں ناکام ہو کر رہ گئی

0
84