جو باہر سے بہت ہی شنگ نکلا
وہ اندر سے بہت بے رنگ نکلا
بظاہر پھول اک پھینکا تھا اس نے
لگا سر پر تو میرے سنگ نکلا
دبا تھا درد جو سینے میں میرے
وہ نکلا تو زبانِ چنگ نکلا
جگر کا خون میں سمجھا تھا جس کو
لگا دل کو وہ میرے زنگ نکلا
یہ شہر آسیب کی زد میں ہے شاہد
یہاں سے جو بھی نکلا دنگ نکلا

0
47