کب ڈرے دریا میں جو سیلاب تھا
سامنے کشتی کے بھی گرداب تھا
مل کے سارے بیٹھتے تھے ہم کبھی
اب تو یوں لگتا ہے جیسے خواب تھا
خوں مرا جس سے ہوا تھا دوستو
پیٹھ پیچھے خنجرِ احباب تھا
کیوں نمایاں ہو گیا میں بزم میں
یوں تو ہر کوئی وہاں سُرخاب تھا
ڈھونڈنے نکلے جو غوطہ خو ر سب
قیمتی گوہر وہ زیرِ آب تھا
ہر جگہ دیکھا نہیں کوئی ملا
تیرے جیسا آدمی نایاب تھا
اپنی ہی کم مائگی حائل ہوئی
ورنہ وہ تو وصل کو بیتاب تھا
لکھ چکا جب وہ کتابِ زندگی
میں بھی طارق اس کا ہی اک باب تھا

1
42
نوازش ڈاکٹر شاہد محمود صاحب! پسندیدگی کا شکریہ!

0