کب ڈرے دریا میں جو سیلاب تھا |
سامنے کشتی کے بھی گرداب تھا |
مل کے سارے بیٹھتے تھے ہم کبھی |
اب تو یوں لگتا ہے جیسے خواب تھا |
خوں مرا جس سے ہوا تھا دوستو |
پیٹھ پیچھے خنجرِ احباب تھا |
کیوں نمایاں ہو گیا میں بزم میں |
یوں تو ہر کوئی وہاں سُرخاب تھا |
ڈھونڈنے نکلے جو غوطہ خو ر سب |
قیمتی گوہر وہ زیرِ آب تھا |
ہر جگہ دیکھا نہیں کوئی ملا |
تیرے جیسا آدمی نایاب تھا |
اپنی ہی کم مائگی حائل ہوئی |
ورنہ وہ تو وصل کو بیتاب تھا |
لکھ چکا جب وہ کتابِ زندگی |
میں بھی طارق اس کا ہی اک باب تھا |
معلومات