کیسے بنیں گی دلکش اپنی کہانیاں سی
رہتی ہیں خود سے مجھ کو کچھ بدگمانیاں سی
کیسے گزر گئے وہ لمحے عروج کے سب
آئی تھیں مجھ پہ بھی تو میری جوانیاں سی
وہ گفتگو کے جھرنے جادو سا تھے جو کرتے
جانے کہاں گئی ہیں اپنی روانیاں سی
یادوں کا طوق پہنے عمریں گزارتے تھے
کیسے کوئی کرے گا ویسی غلامیاں سی
دھندلا گئی نظر بھی سوچوں پہ خاک بیٹھی
گم ہو گئی ہیں ساری تیری نشانیاں سی
اس وقت تھی محبت اب کے نہیں رہی وہ
کیوں ڈھونڈتے ہیں اب ہم وہ مہربانیاں سی
شام و سحر دعائیں وہ آرزو کی شدت
اب رائیگاں ہوئیں جو تھیں جاں فشانیاں سی
مجھ کو نظر تھا آتا وہ سوچ کا بدلنا
وہ کر رہا ہے باتیں جو درمیانیاں سی
وہ محفلوں میں تجھکو تھی دیکھتی ہمایوں
اب بھولنی پڑیں گی وہ میزبانیاں سی
ہمایوں

0
18