لوٹ کر اپنے گھر جو آنے لگے
دل کو اچھے کئی بہانے لگے
کھو گئے ہم کہیں پہ رستے میں
ڈھونڈنے میں کئی زمانے لگے
جو ملے دوست وہ پرانے تھے
ہم کو وہ دوست ہی خزانے لگے
ذکر ہم نے کیا تمہارا جب
جانے کیوں اُٹھ کے لوگ جانے لگے
ہم نے کاٹی جو زندگی تنہا
گھر بھی ہم کو تو قید خانے لگے
واقعہ ہے یہ میرے شہروں کا
لوگ اپنے ہی گھر گرانے لگے
پیش جب سامنے ہوئے اس کے
میرے سارے عمل ٹھکانے لگے
ان کو دیکھا تو ہوش ایسے اڑے
دیکھ کر وہ بھی مُسکرانے لگے
طارق اُس پر نظر پڑی تھی یہاں
جب سے ہم اس گلی میں آنے لگے

3
192
سنجے کمار راہگیر صاحب اور اسلام شکار پوری صاحب پسندیدگی کا بہت شکریہ

0
پسندیدگی کا شکریہ ثاقب محمود صاحب!

0
پسندیدگی کا بہت شکریہ جویریہ!

0