حادثے کیا اور ہوں گے لوگ ہیں مضطر تمام
دیکھ کر بیٹھے ہیں یوں تو خونچکاں منظر تمام
سنگدل اور سنگ باری ہم نے کیا دیکھا نہیں
کیا رکھیں امّید ہوں گے ختم اب پتھر تمام
پھیلتا ہے بے گناہوں کا جو دھرتی پر لہو
پھر رہی ہے قوم ہاتھوں میں لئے خنجر تمام
دھیرے دھیرے لوگ ہجرت کر رہے ہیں شہر سے
کر گئے خالی مکاں کتنے ہی گھبرا کر تمام
کر رہے ہیں لوگ اب روشن اجالوں کی تلاش
تیرگی میں گم ہوئے دھندلا گئے اختر تمام
جب خبر آئی ہے نکلا آسماں پر ماہتاب
چاندنی اتری تو دیکھا اک نیا منظر تمام
لے کے آیا نور وہ ماہِ منوّر مہر سے
مہر وہ مُہرِ نبوّت نعمتیں اُس پر تمام
وہ جو خوش قسمت تھے سارے آگئے ہیں اِس طرف
اُس کے پیچھے چل پڑے ہیں جو ملا رہبر تمام
طارق اپنے اُن بزرگوں کو دُعا دیتے ہیں سب
جن کے دم سے روشنی ہے آج یہ گھر گھر تمام

0
32