جو نُور کائنات میں ، شمس و قمر میں ہے
جلوہ نما ہوا وہی ، قلب و نظر میں ہے
گزری ہے تیری جستجو میں جو گھڑی وہی
سرمایۂ حیات مرا ، اس سفر میں ہے
گزرے بغیر اس سے ، پہنچ پائیں گے کہاں
وہ امتحان جو کہ ابھی رہ گزر میں ہے
کب تک رہے گی رات اندھیرا کئے ہوئے
اب اور کتنی دیر ، طلوعِ سحر میں ہے
خود کو بدل نہیں سکی دنیا جو آج تک
اب کوئی انقلاب کا منظر ، نظر میں ہے
منبر پہ درس دینے کے معیار گر گئے
وا عظ جو بو لتا ہےنگہِ معتبر میں ہے ؟
تسلیم کر کے بات مری اس نے یہ کہا
کہتے تو سچ ہو ، سچ مگر اب کس نگر میں ہے
چرچا جو اس کے حسن کا پھیلا ہے چار سُو
کوئی تو بات پیشِ نظر ، اس خبر میں ہے
طارق اب انتظام تو کچھ ہونا چاہئے
کہتے ہیں کوئی شور نیا بحر و بر میں ہے

1
141
بہت شکریہ منیب صاحب! ممنون ہوں

0