کئی راز دل میں چھپائے ہوئے ہیں
نہ دیکھو ہمیں ہم جلائے ہوئے ہیں
اب پتھر سے پکھراج ہونے کو ہیں ہم
کہ صدیوں سے ہم تو دبائے ہوئے ہیں
ہمیں کھل کے ہسنے دو اے دنیا والو
کہ برسوں کے ہم تو رلائے ہوئے ہیں
یہ سیلاب ہے پر یہ پانی نہیں ہے
یہ آنسو ہمارے بہائے ہوئے ہیں
عذاب ایسے ایسے بتائیں تمہیں کیا
ہمیں کیا خبر کس کے لائے ہوئے ہیں
بس اک سانس تھی وہ بھی چلتی نہیں ہے
وہ جس دن سے ہم سے پرائے ہوئے ہیں
نہ ڈھونڈو ہمیں تم کتابوں میں شاہد
وہ الفاظ ہیں جو مٹائے ہوئے ہیں

0
48