قتل کرنے کا نیا , ان کو قرینہ چاہیے
کاٹ کر شہ رگ ہماری خون پینا چاہیے
زخم سینے پر سہے مڑ کر کبھی بھاگے نہیں
اب ڈٹے رہنے کی خاطر اور سینہ چاہیے
اک رفو گر چاہیے تھا جو ملا اب تک نہیں
اپنے زخموں کو ابھی خود سے ہی سینا چاہیے
ہم کہ یوسف وقت کے تھے رل گئے اس شہر میں
اندھے بہرے شہر کو جعلی نگینہ چاہیے
پیٹ کا دوزخ دیا پھر اس کو بھرنے کے لیے
ناک سے بہتا خدا کو اب پسینا چاہیے
زندگی قسطوں میں ملتی ہے ہمیں شاہد یہاں
موت کے وقفوں میں لمحہ ، لمحہ جینا چاہیے

90