دل میں ہے آرزو سمائی
خوابوں کی ہے مہک بسائی
دلبر کیا جانیں حال میرا
آفت ڈھائے غمِ جدائی
پلکوں کو منتظر بنائے
راتوں کی نیند بھی چرائی
چاہت شفاف اور ستھری
جیسے جھرنے کا صاف پانی
گردش پرچھائیں کر رہی ہو
دے بازِ گشت بھی سنائی
ناصؔر مدہوش پر نہ ہونا
واقف انجام سے نہ کوئی

0
65