اگرچہ لہجے میں بے حد مٹھاس رکھتے ہیں |
نہ جانے دل میں وہ کیا کیا بھڑاس رکھتے ہیں |
میں اپنے دوستوں کی سادگی پہ حیراں ہوں |
جو دشمنوں سے مروّت کی آس رکھتے ہیں |
وہ لوگ چین سے سوتے ہیں رات جی بھر کے |
جو لوگ دن میں قناعت کو پاس رکھتے ہیں |
کسی کے سامنے پھیلائیں ہاتھ ہم کیونکر |
ملا تو کھا لیا سادہ لباس رکھتے ہیں |
کریں ہم اپنی حفاظت بھی وضع داری سے |
ہمارے کانٹے بھی پھولوں کی باس رکھتے ہیں |
سلوک ہم سے کیا جائے گا محبّت کا |
کب اپنے شہر میں ہم یہ قیاس رکھتے ہیں |
ہمیں تو ان سے تعلّق ہے آشنائی کا |
مزاج جو بھی ذرا غم شناس رکھتے ہیں |
ہمارے سامنے طارق یہ پیچ ہے دنیا |
کہ لا الٰہ پر دیں کی اساس رکھتے ہیں |
معلومات