خِرَد بجا یہ کہے، بر تر از صلیب ہے وہ
ہے زندہ ، زندگی دینے میں تو عجیب ہے وہ
عجیب بات ہے دیکھا ، نہیں کبھی اُس کو
مگر یقین ہے ، شہ رگ سے بھی قریب ہے وہ
قدم تو اُس کی طرف میں بڑھا نہیں پایا
جو وصل پا گیا، سمجھا مرا رقیب ہے وہ
یہ آس لے کے مگر اس کے در پہ بیٹھا ہوں
دُعا سنے گا کبھی تو مری ، مجیب ہے وہ
غفور ہے وہ رحیم و کریم بھی ہے اگر
نہ خوف مجھ کو دلاؤ ، مرا حسیب ہے وہ
خدایا وصل کی صورت نکال اب کوئی
عدو ہے جو مری تنقیص کا نقیب ہے وہ
مرا گمان یقیں میں بدل نہ پائے گا
جو مجھ سے رُوٹھا ہوا ہے ، مرا نصیب ہے وہ
ہے منتظر تری نظرِ کرم کا ہی طارق
طلب میں تیری رضا کی ، ہوا غریب ہے وہ

0
35