آج پھر اپنے رقیبوں سے ملاقات کا خوف
اپنے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم ذات کا خوف
ہر کسی بات میں آتے ہیں نشیب اور فراز
باتیں کرتے ہوئے ہر چیز کا ہر بات کا خوف
پھر کہیں تلخ مباحث سے ہو تکرار مزید
گزرے ایاّم سے وابستہ خیالات کا خوف
میرے احباب میں تم نے مجھے بدنام کیا
جن کی بنیاد نہیں ایسے سوالات کا خوف
نہ کوئی گھر ہے نہ کھڑکی ہے نہ دروازہ کہیں
باخدا اب نہیں مجھ کو کسی برسات کا خوف
مجھ کو ہر بار ترے قرب نے دوری بخشی
دل میں اٹھتے ہوئے بہکے ہوئے جذبات کا خوف
جانے کیوں طیش میں نازیبا سی باتیں کر دیں
یاد کرتا ہوں تو آتا ہے خرافات کا خوف
جب کسی شادی میں شرکت کا خیال آئے امید
مجھ کو ہر سمت نظر آتا ہے بارات کا خوف

0
60