مانگتے ہیں اس کے در سے ہم سبھی کی خیر کو |
جب کبھی جلتے ہوئے دیکھیں حسد سے غیر کو |
دل کے دروازے پہ دستک دے کے سب اس کے خیال |
پوچھتے کب ہیں ، کہ آ جائیں ذرا ہم سیر کو |
پڑھ کے پیمانِ حرم کے سب تقاضے کہہ دیا |
الوداع کہنے صنم کو ، جا رہے ہیں دَیر کو |
صاف دل رکھا ہوا ہے ہم نے سب کے واسطے |
جانے کیوں رکھتے ہیں پھر بھی لوگ دل میں بیر کو |
آرزوئے دید لے کر ، کوئے جاناں کو چلے |
جاتے جاتے کہہ رہے ہیں وہ دعائے خیر کو |
سنگِ اسود چوم لینا ، اک سعادت ہے مگر |
ٹھوکریں لگتی ہیں کتنی سنگِ رہ سے پیر کو |
طارق اس راہِ وفا میں ہم نے دیں قربانیاں |
کر لیا تیّار اُڑنے کو ، قفس کے طَیر کو |
معلومات