مانگتے ہیں اس کے در سے ہم سبھی کی خیر کو
جب کبھی جلتے ہوئے دیکھیں حسد سے غیر کو
دل کے دروازے پہ دستک دے کے سب اس کے خیال
پوچھتے کب ہیں ، کہ آ جائیں ذرا ہم سیر کو
پڑھ کے پیمانِ حرم کے سب تقاضے کہہ دیا
الوداع کہنے صنم کو ، جا رہے ہیں دَیر کو
صاف دل رکھا ہوا ہے ہم نے سب کے واسطے
جانے کیوں رکھتے ہیں پھر بھی لوگ دل میں بیر کو
آرزوئے دید لے کر ، کوئے جاناں کو چلے
جاتے جاتے کہہ رہے ہیں وہ دعائے خیر کو
سنگِ اسود چوم لینا ، اک سعادت ہے مگر
ٹھوکریں لگتی ہیں کتنی سنگِ رہ سے پیر کو
طارق اس راہِ وفا میں ہم نے دیں قربانیاں
کر لیا تیّار اُڑنے کو ، قفس کے طَیر کو

0
130