کیوں نہ ہو ناز خدو خال پہ اپنے اس کو |
اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے خدا نے اس کو |
کاش اس کو بھی کبھی یاد مری آ جائے |
نیند سے سپنے جگائیں جو سہانے اس کو |
اُس پہ مر مٹنے کو تیّار ہوا تھا کوئی |
آئے گا کون بھلا یاد دلانے اس کو |
روٹھ جانے کا بہانہ تو وہ کر کے دیکھے |
ہم بڑے شوق سے جائیں گے منانے اس کو |
اس کی آنکھوں میں اداسی نہیں دیکھی جاتی |
بھیج دیتا ہے خدا ، کوئی ہنسانے اس کو |
پھر سے اک بار کہوں گا کہ وہ آئے ملنے |
ٹال جانے کے تو آتے ہیں بہانے اس کو |
چاہتے ہیں کہ بلائیں اُسے دل میں اپنے |
اور آئے نہ کوئی پہلے ، بلانے اُس کو |
وہ نہیں بھولا کبھی اپنی دعاؤں میں ہمیں |
کیوں نہ ہم بھیجیں دعاؤں کے خزانے اس کو |
میکدے جانے کی نوبت ہی نہ آئی طارق |
جامِ یوں آتے ہیں آنکھوں سے پلانے اس کو |
معلومات