زنجیر کہاں رشتوں میں اب مرے یار
کیا کرتب ہے اپنا مطلب مرے یار
لمحوں میں پھوٹ ڈالے ان رشتوں کو یار
جھولے تھے اک گود میں وہ سب مرے یار

87