میں نے کہا کہ چاند ستارے نہیں رہے |
بولی سمندروں کے کنارے نہیں رہے |
پوچھا کہ اپنی دیدۂ بینا کہاں گئی |
بولی کہ آج کل وہ نظارے نہیں رہے |
اس نے کہا کہ کھو گئے خاموشیوں میں تم |
میں نے کہا کہ اب وہ اشارے نہیں رہے |
بولا تمہارے شہر کے شاعر کہاں گئے |
کہنے لگی کہ درد کے مارے نہیں رہے |
پوچھا کہ اب کہاں وہ توانائیاں گئیں |
بولی کہ آج کل وہ سہارے نہیں رہے |
بولی کہ زندگی سے ہی مایوس ہو گئے |
میں نے کہا کہ تم جو ہمارے نہیں رہے |
معلومات