رد نہ خواہش ہوسکے کوئی اثر سے پہلے
اہمیت ہو جائے معلوم قدر سے پہلے
لاکھ انکار توُ اس بات سے کر لے لیکن
میں نے دیکھا ہے تجھے تیری نظر سے پہلے
کونسی ہو رہ گزر اور ہو منزل تیری
فیصلہ کر لے ذرا وقت سفر سے پہلے
عزم گر ہے ترا دریا میں اتر جانے کا
جان لے لعل کو بھی موج گہر سے پہلے
شوق طوفان سے ٹکرانے کا جو رکھتے ہیں
کشتی کو موڑنا بھی سیکھیں بھنور سے پہلے
دیکھ پائے گا وہ محبوب کا کوچہ جاناں
پہرہ موجود ہے پر اس کے شہر سے پہلے
اب رہی نیند بھی اپنی نہیں ناصؔر ہرگز
خواب اکثر ہی جگاتے ہیں سحر سے پہلے

0
47