ڈھل گئے ہیں ماہ و سال دیکھتے ہی دیکھتے
اُڑ گیا جاہ و جلال دیکھتے ہی دیکھتے
ورطہِ حیرت ہوں میں کہ مٹ گئی ہیں رونقیں
شہر ہے اب خال خال دیکھتے ہی دیکھتے
جستجو کی تھی وہ بات پوچھنا ہی پوچھنا
ختم ہیں سارے سوال دیکھتے ہی دیکھتے
حسن ادا اور وہ ناز دبدبے کی منزلیں
گم ہوا تیرا جمال دیکھتے ہی دیکھتے
اب سمجھ آئی یہ بات کھُل گیا یہ راز بھی
ہر ادا رُوبہ زوال دیکھتے ہی دیکھتے
تیری ہمایوں جو ذات محفلوں کا رنگ تھی
تُو بنا اب اک وبال دیکھتے ہی دیکھتے
ہمایوں

0
14