کٹی رات ساری فراق میں تو شعاعِ نُور کو کیا کروں
کبھی وصل جانِ حزیں بنے تو اسی سے کسبِ ضیا کروں
نہیں پارسائی کا اِدّعا پہ جبینِ سجدہ نیاز ہوں
ہو اگر اشارہ قبول ہیں تو کہاں مجال قضا کروں
جو کہ کِبر و ناز و غرور تھے جئے کب تلک وہ جہان میں
سبھی ایسے رزقِ زمیں ہوئے کہ سنیں اگر تو صدا کروں
کیا دراز زلفیں ہیں با خدا کیا حسین چہرۂ دلربا
یہاں دردِ دل کا ہے عارضہ کہاں جاؤں کس سے دعا کروں
چلے آؤ رات گزر گئی ولے جیسے کٹنی تھی کٹ گئی
نہ شکایتیں نہ حکایتیں کہاں جاؤں کس سے گلہ کروں
چلو چھوڑو قِصۂ دلربا کہ کسی کے دل کا ہے ماجرا
اب نماز ہونے لگی قضا کیوں نہ سب سے پہلے ادا کروں

0
55