مجھ سے وہ بے حجاب پہلے نہ تھا
چہرہ یوں بے نقاب پہلے نہ تھا
یوں ہر آہٹ پہ دل تھا کب دھڑکا
دل میں یہ اضطراب پہلے نہ تھا
جھوم کر اب گھٹا جو اُٹھی ہے
آنکھ میں سیلِ آب پہلے نہ تھا
رنجشیں بڑھ گئی ہیں ورنہ تو
موسم اتنا خراب پہلے نہ تھا
راس آئی نہیں ہے تشنہ لبی
ہر قدم پہ سراب پہلے نہ تھا
وصل کی شب نہ کوہِ طور ہو دل
اس کا جلوہ تو خواب پہلے نہ تھا
وہ جو اُترا ہے چودھویں کی رات
بدر وہ ماہ تاب پہلے نہ تھا
لوٹ آیا ہے وقت اس کے ساتھ
اس پہ ایسا شباب پہلے نہ تھا
میں نشے میں تو تھا حواس میں تھا
وہ مرے ہم رکاب پہلے نہ تھا
اس کی خاطر ہو زندگی طارق
ہے جو لبِّ لباب پہلے نہ تھا

0
70