شاخِ امید تو نے میری رکھی ہری ہے
تیری عطا نے آقا جھولی سدا بھری ہے
ہر سینے کی شفا ہے حبِ نبی میں پنہاں
دانِ نبی نے قسمت موتی سے ہی جَڑی ہے
عاجز اگر ہے آیا اس در پہ ہاتھ خالی
اس کو ملی نبی سے خیراتِ سروری ہے
تیری نظر سے ہیرا ہے ذرہ ریگ کا بھی
تیری عطا سے حاصل الطافِ حیدری ہے
تجھ سا حسیں خلق میں پیدا ہوا کہاں ہے
اے ہاشمی لقب تیری شان ہی بڑی ہے
خلُقِ عظیم تو نے کیا خلق کو حسیں ہے
رونق یہ عالمیں کی اس فیض کی کڑی ہے
شاہی سے بڑھ کے محمود سرکار کی گدائی
کیا کام خسروی کا کیا چیز قیصری ہے

60