دیکھ کر آنکھوں سے ویرانی مری |
شکل دانستہ نہ پہچانی مری |
آج پھر ان کی گلی کا عزم ہے |
دیکھئے گا حشر سامانی مری |
کر دیا ہے خط مرا واپس مجھے |
دیکھ کر باہر سے پیشانی مری |
معجزے ہوتے ہیں گو دنیا میں روز |
آج تک تو بات نہ مانی مری |
گالیاں دینا مری فطرت نہیں |
غالباً تھی شعلہ افشانی مری |
ان کو پہرے دار اک درکار تھا |
آگئی ہے کام دربانی مری |
کل رقیبوں کو سنائیں بے شمار |
آفرین اے زہر افشانی مری |
کر لیا ان پر بھروسہ آج پھر |
واہ ری قسمت یہ نادانی مری |
نا مکمّل چھوڑ کر اگلا شروع |
بس طبیعت ہی تھی سیلانی مری |
عقدِ مسنونہ ہؤا جن سے امید |
مَیں ہوں اُن کا وہ ہیں دیوانی مری |
معلومات