ہم سفر ہے مگر اکیلی ہے
زندگی غم کی اک پہیلی ہے
پھر ترے ہجر کی وہی بارش
جو مری روح کی سہیلی ہے
پھر وہی شام کا گھنا سایہ
پھر ترا درد یار بیلی ہے
پھر کسی لمس کی مہک جاگی
پھر وہی ہاتھ ہے ہتھیلی ہے
پھر ترا روپ چار سو بکھرا
پھر وہی آنکھ جو نشیلی ہے
اپنی وحشت ہمیں مبارک ہو
کوئی غم خوار ہے نہ بیلی ہے

58