ہے شکر اس کا جو ہم نے دیکھی عنایتوں کی کمال بارش
سمجھ رہے تھے کہ پھر زمیں پر فلک کی ٹپکی ہے رال بارش
تری اداؤں پہ مر مٹے ہیں تو کیوں نہ دل تیرے نام کر دیں
ہے تیرے احساں کے بادَلوں کی یہ تیرا حسن و جمال بارش
محبّتوں کی کہانیوں میں یہی ہوا ہے یہ اب بھی ہو گا
کہ شوق سے بھیگتے ہیں اس میں جنہیں ہے ملنا محال بارش
نتیجہ اب تک تو آچکا ہے کہ کون جیتا ہے کون ہارا
کہاں چھپا کر رکھی تھی ووٹوں کی ہے کہیں تو نکال بارش
عجیب موسم ہوا ہے درپیش سب مسائل کو ساتھ لے کر
یہ ٹل سکے گا تبھی اگر ہوگی رحمتوں کی مثال بارش
سکون ہو گا اگر زمانہ یہ لوٹ جائے خدا کی جانب
جو ہو وہ راضی تو پھر سے کر دے خوشی سے طارق نہال بارش

0
43