بھوک کی شدّت سے جب انساں پریشاں ہو گئے |
بھول کر انسانیت دست و گریباں ہو گئے |
امتحاں ہوتے ہیں جذبے بھی کبھی اخلاق کا |
قہر میں دیکھا ہے انسانوں کو حیواں ہو گئے |
گو عموماً جھوٹ سے پرہیز ہی کرتے ہیں لوگ |
سچ کی خاطر ہیں مگر کتنے جو قرباں ہو گئے |
سچ نہ بولا گر ندامت کی اسے سمجھیں نہ بات |
جھوٹ گر بولا تو کیا اس پر پشیماں ہو گئے |
گر نہیں لالچ کوئی کچھ ڈر نہیں نقصان کا |
جب کہا ایسے میں سچ سمجھے کہ احساں ہو گئے |
کر کے نیکی دیکھ لو خود اس کی ملتی ہے جزا |
کیا نہ چہرے جو پریشاں تھے درخشاں ہو گئے |
شہر ہو جاتے ہیں ویرانے محبّت کے بنا |
جو گل و بلبل کی رونق سے گلستاں ہو گئے |
کہکشاؤں سے پرے جاتی ہے ان کی روشنی |
جو شبِ تاریک میں شمعِ فروزاں ہو گئے |
مطمئن طارق وہی ہوتا ہے جو یہ سوچ لے |
ہو گئی رب کی رضا حاصل تو شاداں ہو گئے |
معلومات