یادوں میں اس کا گھر جو ہمیشہ بسا رہے
پھر کیسے دور ہم سے ہمارا خدا رہے
جب دل میں اس کے پیار کا روشن دیا رہے
آنکھوں میں نور اس کا ہمیشہ سجا رہے
ہم نے سفر میں کب کوئی خود سے قدم لیا
ہم تو اسی کا ڈھونڈتے ہیں نقشِ پا رہے
پھولوں کے ساتھ دوستی کچھ اس لئے بھی کی
گلشن کے ساتھ رشتۂ بوئے وفا رہے
لازم ہے پیاس دل کی بجھانا بھی دید سے
سینچا نہیں جو کھیت وہ کب تک ہرا رہے
اس دل میں ایک اس کا بسیرا ہےمستقل
ممکن نہیں کوئی یہاں اُس کے سوا رہے
چاہے گا کون نیند نہ آئے وہ جب مرے
اس طرح آئے خواب میں چہرہ کھلا رہے
کچھ دیر یوں بھی اس نے ملانے دیا نہ ہاتھ
کچھ دیر اور ہاتھ پہ رنگِ حنا رہے
طارق کبھی نہ ہو سکی جی بھر کے گفتگو
حائل ہمیشہ بیچ میں شرم و حیا رہے

0
47