تُو نہ آیا مُجھے منانے کو
کیا مَیں سمجھوں ترے بہانے کو
کرب لفظوں میں ڈھل نہیں سکتا
زخم ہی ہیں تُجھے دِکھانے کو
جو چُھپایا ہے تیری نظروں نے
مَیں نے دیکھا ہے اُس خزانے کو
میری معصومیت پہ میرے دوست
آ گئے اُنگلیاں اُٹھانے کو
داستاں ہجر کے تسلسل کی
کھا گئی پیار کے فسانے کو
پیار میں جو ہوا ہے دیوانہ
کون سمجھے گا اُس دِوانے کو
مَیں جِسے کل تلک مناتا رہا
پِھر وہ لوٹ آیا رُوٹھ جانے کو

0
107