مجھ پہ ہر دور میں عذاب آئے
اتنے آئے کہ بے حساب آئے
منزلیں مجھ سے ہر دفع روٹھیں
میں جہاں بھی گیا سراب آئے
اک نظر میں نے دیکھنا تھا اسے
جب بھی آئے تہِ نقاب آئے
ایک ہی شرط پر ملوں گا اسے
اب جو آئے تو بے نقاب آئے
گھر کے رستے میں ہے مے خانہ
لوٹ کر غرقِ مے ناب آئے
شغل جام و شراب ہو جائے
دوستو کچھ تو لذِت شراب آئے
مجھے کچھ راز کھوجنے ہیں ابھی
مجھے جو چاہیئے کتاب آئے
اتنی مایوسیاں ہوا میں ہیں
اب تو لگتا ہے انقلاب آئے

0
63