میں شوخیِ گل بہار ہوتا اگر اسے مجھ سے پیار ہوتا
خزاں کے رت میں گلاب لہجہ بناۓ میں استوار ہوتا
فضاۓ محرومِ گلستاں ہوں مرا نشیمن کہیں نہیں ہے
جو ریگزاروں میں نہ بھٹکتا چمن میں بادِ بہار ہوتا
میں بلبلِ نغمہ ساز نے ہوں ؟ چمن میں جانے سے روک ڈالا
برا مگر اس پہ کیا گزرتا چمن سے گر ہم کنار ہوتا
وہ باغبانِ چمن ہے گرچہ اسے خبر کچھ نہیں ہے گل کی
وگرنہ میں گل بہار ہوتا نہیں خزاں کا شکار ہوتا
میں وہ کلی ہوں کہ چبھتا رہتا ہوں باغباں کے دل و نظر میں
اے کاش میں خوشگوار ہوتا ، میں اس کے دل کا قرار ہوتا
یہ جام و مینا مجھے بھی ملتا مجھے بھی ساقی گوارا کرتا
جو بادہ نوشوں کی انجمن میں اگر مرا بھی شمار ہوتا
کہا جو میں نے یہ کیا ستم ہے تو واعظِ دل نواز بولا
کہ تو ہی تو بس جہاں میں ہوتا خودی پہ گر اعتبار ہوتا
کہ تیری ہستی ہی تیرا سب کچھ ہے اے دلِ بے نیاز! جانو
جو خود سے تجھ کو امید ہوتی زمانہ تجھ پر نثار ہوتا
یہ اس قدر بھی نہ ہاتھ پھیلا کہ چادرِ شرف چاک تر ہو
جو اپنی حد سے تو نہ گزرتا کسی کے آگے نہ خوار ہوتا
تو تنہا کیوںکر سمندروں کے میان پھینکا کبھی بھی رہتا
جو قعرِ دریا کا سب سے اچھا تو گوہرِ آبدار ہوتا
یہ سن کے دل نے کہا ہے مجھ سے اے میرے ہمدم ! سنو تو کہدوں
یہ " ما تمنی" جبھی تھی ممکن اگر ترا اختیار ہوتا
یہ سن کے خود پر ملال آیا یہ آہ سوزِ جگر سے نکلی
کہ میں بھی دستِ کرم کا اس کے کوئی حسیں شاہکار ہوتا
ستارہ بن کے فلک پہ رہتا زمانہ مجھ سے سرور پاتا
مگر مقدر مرا یہی تھا کہ خاکِ پا رہ گزار ہوتا
میں ہر نظر کا دلارا اے دل ! نہ بن سکا ہاۓ کم نصیبی
کہ مضطرب چشمِ منتظر کو کبھی مرا انتظار ہوتا
کبھی مجھے کیوں گلہ ہو اس سے اگر میں قابل نہیں کسی کے
مگر ذرا میرا شوق دیکھے بھلے اسے ناگوار ہوتا
یہ شکستہ دل کی صداۓ بے جا کہوں کسی سے یا نہ کہوں میں
کہ میری حسرت میں کوئی روتا کوئی مرا جانثار ہوتا
جو نا امیدی کے شاہراہ پر اگر چراغِ امید ہوتی
تو من کے ویران دشت و صحرا میں میں مثل، لالہ زار ہوتا
وہ اپنے یاروں میں جانثاروں میں مجھ کو بھی ہاں، شمار کرتا
اگر اسے کچھ لگاؤ ہوتا تو میں بھی یارانِ غار ہوتا
مری غزل میں چمک نہیں ہے دمک نہیں ہے رمق نہیں
ہے
کہوں میں خود کو غزل سرا کیوں اے کاش میں ہونہار ہوتا
یہ ایک خواہش مجھے بھی کب سے ستاۓ جاتی رہی ہے شاہی ؔ
کہ میں کبھی اس کے در پہ ہوتا مجھے بھی دیدارِ یار ہوتا

1
54
ہاۓ کم نصیبی